واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

شفیع المذنبین رحمتہ اللعالمین حضرت محمدرسول اللہ

  صلّی اللہ علیہ  وآلہ وسلم

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جوہزار سال سے بھی پہلے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ " میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔"

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔

تقریباً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہؓ کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا ۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ آپؓ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔

  پہلی  وحی  کا  نزول   حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غوروفکر کےلیے مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھےحضرت جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لائے۔ اس وقت سورۃ العلق کی آیات نازل ہوئیں۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ شروع ہی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ ، آپؐ کے چچا زاد حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، اور آپؐ کے آزاد کردہ غلام اور صحابی حضرت زید بن ثابت   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تھے جو ایمان لائے۔

 619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی حضرت خدیجہؓ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔

  واقعہ  معراج 620 ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرامؑ کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمانوں میں اللہ تعالی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنت اور دوزخ دکھایا۔ وہاں آپؐ کی ملاقات مختلف انبیائے کرامؑ سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔

622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔

            آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجرین کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا ۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔

          میثاق مدینہ کو بجا طور پر تاریخ انسانی کا پہلا تحریری دستور قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریاست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی 53دفعات تھیں۔

           مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک تھے انہیں غزوہ کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں سریہ کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔

  غزوہ بدر :۔ 17 رمضان 2ھ (17 مارچ 624ء) کو بدر کے مقام پر مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان غزوہ بدر ہوئی۔ مسلمانوں کی تعداد 313 جبکہ کفار مکہ کی تعداد 1300 تھی۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی۔ 70 مشرکینِ مکہ مارے گئے جن میں سے 36 حضرت علی علیہ السلام کی تلوار سے ہلاک ہوئے۔ مشرکین 70 جنگی قیدیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مسلمان شہداء کی تعداد 14 تھی۔

  غزوہ احد 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں ابوسفیان کفار کے 3000 لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ احد کے پہاڑ کے دامن میں ہونے والی یہ جنگ غزوہ احد کہلائی ۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کفار کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ ٹیلے پر موجود لوگوں نے بھی یہ سوچتے ہوئے کہ فتح ہو گئی ہے کفار کا پیچھا کرنا شروع کر دیا یا مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اس بات کا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ کر دیا ۔ اس جنگ سے مسلمانوں کو یہ سبق ملا کہ کسی بھی صورت میں رسول اکرم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کریں۔

  غزوہ خندق (احزاب):۔ شوال۔ ذی القعدہ 5ھ (مارچ 627ء) میں مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی مگر مسلمانوں نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی۔ مشرکینِ مکہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ خندق کھودنے کی عرب میں یہ پہلی مثال تھی کیونکہ اصل میں یہ ایرانیوں کا طریقہ تھا۔ ایک ماہ کے محاصرے اور اپنے کئی افراد کے قتل کے بعد مشرکین مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔ بعض روایات کے مطابق ایک آندھی نے مشرکین کے خیمے اکھاڑ پھینکے۔

  غزوہ بنی قریظہ:۔ ذی القعدہ ۔ ذی الحجہ 5ھ (اپریل 627ء) کو یہ جنگ ہوئی۔ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔

  غزوہ بنی مصطلق:۔ شعبان 6ھ (دسمبر 627ء۔ جنوری 628ء) میں یہ جنگ بنی مصطلق کے ساتھ ہوئی۔ مسلمان فتح یاب ہوئے۔

  غزوہ خیبر:۔

 محرم 7ھ (مئی 628ء) میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ جنگ ہوئی جس میں مسلمان فتح یاب ہوئے۔

  جنگِ موتہ:۔ 5 جمادی الاول 8ھ (اگست ۔ ستمبر 629ء) کو موتہ کے مقام پر یہ جنگ ہوئی۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک نہیں ہوئے تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے۔

  غزوہ فتح (فتحِ مکہ):۔ رمضان 8ھ (جنوری 630ء) میں مسلمانوں نے مکہ فتح کیا۔ جنگ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی کیونکہ مسلمانوں کی ہیبت سے مشرکینِ مکہ ڈر گئے تھے۔ اس کے بعد مکہ کی اکثریت مسلمان ہو گئی تھی۔

  غزوہ حنین:۔ شوال 8ھ (جنوری ۔ فروری 630ء) میں یہ جنگ ہوئی۔ پہلے مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی مگر بعد میں وہ فتح میں بدل گئی۔

  غزوہ تبوک:۔ رجب 9ھ (اکتوبر 630ء) میں یہ افواہ پھیلنے کے بعد کہ بازنطینیوں نے ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کے محاذ پر رکھی ہے۔اس لیے مسلمان ایک عظیم فوج تیار کر کے شام کی طرف تبوک کے مقام پر چلے گئے۔ وہاں کوئی دشمن فوج نہ پائی اس لیے جنگ نہ ہو سکی مگر اس علاقے کے کئی قبائل سے معاہدے ہوئے اور جزیہ ملنے لگا ۔

  صلح حدیبیہ:۔  مدینہ اورمشرکینِ مکہ کے درمیان مارچ 628ء کو ایک معاہدہ ہوا جسے صلح حدیبیہ کہتے ہیں۔ 628ء (6 ہجری) میں 1400 مسلمانوں کے ہمراہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے مکہ کی طرف عمرہ کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ مگر عرب کے رواج کے خلاف مشرکینِ مکہ نے حضرت خالد بن ولید (جو بعد میں مسلمان ہو گئے) کی قیادت میں دو سو مسلح سواروں کے ساتھ مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر مکہ کے باہر ہی روک لیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دانشمندی سے صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ اس کی بنیادی شق یہ تھی کہ دس سال تک جنگ نہیں لڑی جائے گی اور مسلمان اس سال واپس چلے جائیں گے اور عمرہ کے لیے اگلے سال آئیں گے۔ چنانچہ مسلمان واپس مدینہ آئے اور پھر 629ء میں حج کیا۔

             صلح حدیبیہ کے بعد محرم 7ہجری  میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف حکمرانوں کو خطوط لکھے اور اپنے سفیروں کو ان خطوط کے ساتھ بھیجا۔ ان خطوط میں اسلام کی دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک خط ترکی کے توپ کاپی نامی عجائب گھر میں موجود ہے۔ ان حکمرانوں میں فارس کا بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کا بادشاہ ہرکولیس، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کا حکمران مقوقس اور یمن کا سردار شامل ہیں۔ پرویز نے یہ خط پھاڑ دیا تھا ۔ نجاشی نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کی تصدیق کی اور کہا کہ ہمیں انجیل میں ان کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس نے نرم جواب دیا۔

         اگرچہ صلح حدیبیہ کی مدت دس سال طے کی گئی تھی تاہم یہ صرف دو برس ہی نافذ رہ سکا۔ ایک رات بنو بکر کے کچھ آدمیوں نے شب خون مارتے ہوئے بنو قزعہ کے کچھ لوگ قتل کر دیئے۔ قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ اپنے اتحادیوں کی مدد کی۔ اس واقعہ کے بعد نبی اکرم نے قریش کو ایک تین نکاتی پیغام بھیجا اور کہا کہ ان میں سے کوئی منتخب کر لیں: 1۔ قریش بنو قزعہ کو خون بہا ادا کرے، 2۔ بنو بکر سے تعلق توڑ لیں، 3۔ صلح حدیبیہ کو کالعدم قرار دیں۔

           قریش نے جواب دیا کہ وہ صرف تیسری شرط تسلیم کریں گے۔ تاہم جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور ابو سفیان کو معاہدے کی تجدید کے لئے روانہ کیا گیا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی درخواست رد کر دی۔

            630ء میں انہوں نے دس ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ہیبت دیکھ کر بہت سے مشرکین نے اسلام قبول کر لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عام معافی کا اعلان کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فاتح بن کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کعبہ میں موجود تمام بت توڑ ڈالے اور شرک و بت پرستی کے خاتمے کا اعلان کیا۔

            حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زندگی کا آخری حج سن 10ہجری میں کیا۔ اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ آپ 25 ذی القعدہ 10ہجری (فروری 632ء) کو مدینہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج آپ کے ساتھ تھیں۔ مدینہ سے 9 کلومیٹر دور ذوالحلیفہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام پہنا۔ دس دن بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ پہنچ گئے۔ حج میں مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ عرفہ کے دن ایک خطبہ دیا اور اس سے اگلے دن منیٰ میں ایک یادگار خطبہ دیا جو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔                

       حضور ﷺ کے بے شمار معجزات ہیں یہاں ایمان کی تازگی کے لیے صرف چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔

  نبی پاک ﷺ کی بر کت سے پانی کا مسئلہ حل ہو گیا    حضرت براءبن عازب   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فر ماتے ہیں واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس پانی کا ایک قطرہ بھی نہ چھو ڑا۔ سو حضور نبی اکرم ﷺ کنویں کے منڈیر پر آ بیٹھے اور پانی طلب فر مایا: اس سے کلی فر مائی اور وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔تھوڑی ہی دیر بعد ہم اس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب سیراب ہوئے او رہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو گئے۔صحیح بخاری:کتاب المناقب: باب علامات النبوة فی الاسلام

  نبی پاک ﷺ کی ذات پاک کی بر کت سے صحا بی کا قرض ادا ہو گیا     حضرت جابر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ میرے والد وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا۔ سو میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے والد نے (وفات کے بعد ) پیچھے قرضہ چھوڑا ہے اور میرے پاس ( اس کی ادائیگی کے لیے) کچھ بھی نہیں ما سوائے جو کھجور کے درختوں سے پیدا وار حاصل ہوتی ہے اور ان سے کئی سال میں بھی قرض ادا نہیں ہو گا۔آپ ﷺ میرے ساتھ تشریف لے چلیں تاکہ قرض خواہ مجھ پرسختی نہ کریں سو آپ ﷺ (ان کے ساتھ تشریف لے گئے اور ان کے)کھجوروں کے ڈھیروں میں سے ایک ڈھیر کے گرد پھرے اور دعا کی پھر دوسرے ڈھیر(کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا) اس کے بعد آپ ﷺ ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور فر مایا: قرض خواہوں کو ماپ کر دیتے جا سو سب قرض خواہوں کا پورا قرض ادا کر دیا گیا اور اتنی ہی کھجوریں بیچ بھی گئیں جتنی کہ قرض میں دی تھیں۔ صحیح بخاری :کتاب المناقب: باب علامات النبوة فی الاسلام، وفی کتاب البیوع:باب الکیل علی البائع والمعطی،واحمد بن حنبل فی المسند

  نبی پاک ﷺ کی دعا سے ڈوبا سور ج پھر طلوع ہو گیا      حضرت اسماءبنت عمیس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ ﷺ کا سر اقدس حضرت علی   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی گود میں تھا وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔حضور نبی اکرم ﷺنے دعا کی: اے اللہ(عزوجل) ! علی تیری اور تیرے رسول(ﷺ) کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماءفر ماتی ہیں: میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔

اخرجہ الطبرانی فی المعجم الکبیر، والھیثمی فی مجمع الذوائد، والذھبی فی میزان الاعتدال، ابن کثیر فی البدایة والنھایة،والقا ضی عیاض فی الشفائ، والسیوطی فی الخصا ئص الکبری، والقر طبی فی الجامع الاحکام القر آن،رواہ الطبرانی باسانید ، وقال الامام النووی فی شرح مسلم ۔

  نبی پاک ﷺ کی  برکت  سے  چمڑے  کے  برتن  سے  گھی  مل  جاتا:۔     حضر ت جابر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ حضرت ام مالک   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضو ر نبی اکرم ﷺ کو ایک چمڑے کے بر تن میں گھی بھیجا کرتی تھیں، ان کے بیٹے آکر ان سے سالن مانگتے ، ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی تھی،تو جس چمڑے کے بر تن میں وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے گھی بھیجا کر تیں اس کا رخ کرتیں اس میں سے انہیں گھی مل جاتا، ان کے گھر میں سالن کا مسئلہ اسی طرح حل ہوتا رہا یہاں تک کہ انہوں نے ایک دن اس چمڑے کے برتن کو نچوڑ لیا پھر وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ ﷺ نے فر مایا: تم نے چمڑے کے برتن کو نچوڑ لیا؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہ ﷺ !آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اسے اسی طرح رہنے دیتیں تو اس سے ہمیشہ (گھی )ملتا رہتا۔صحیح مسلم: کتاب الفضائل : باب فی معجزات النبی ﷺ، واحمد بن حنبل فی المسند،والعسقلانی فی تہذیب، وفی فتح الباری

  حضور ﷺ کے عطا کیے کھانے میں برکت ہو گئی     حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حا ضر ہو کر کچھ کھانا طلب کیا۔ آپ ﷺ نے اسے نصف وسق(ایک سو بیس کلو گرام) جو دے دئیے۔ وہ شخص اس کی بیوی اور ان دونوں کے مہمان بھی وہی جو کھاتے رہے یہاں تک کہ ایک دن انہوں نے ان کو ماپ لیا۔ پھر وہ حضور ﷺ کی خدمت میں آیا تو آپ ﷺ نے فر مایا: اگر تم اس کو نہ ماپتے تو تم وہ جو کھاتے رہتے اور وہ یونہی (ہمیشہ) باقی رہتے۔صحیح مسلم :کتاب الفضا ئل :باب فی معجزات النبی ﷺ، واحمد بن حنبل فی المسند

  فرشتوں کا لڑا ئی میں حصہ لینا    حضرت سعد بن ابی وقاص   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ جنگ احد کے روز میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جوآپ ﷺ کی جانب سے لڑ رہے تھے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے بڑی بہادری سے بر سر پیکار تھے میں انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں یعنی جبرائیل و میکائیل علیہ السلام تھے۔

صحیح بخاری : کتاب المغازی:باب اذ ھمت طا ئفتان منکم ان تفشلا واللہ ولیھا وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ،وفی کتاب اللباس:باب الثیاب البیض،صحیح مسلم:کتاب الفضائل:باب فی قتال جبریل ومیکائیل عن النبی ﷺ یوم احد، واحمد بن حنبل فی المسند، والشا شی فی المسند، والذھبی فی سیر اعلام النبلائ، والخطیب التبریزی فی مشکاة المصا بیح: کتاب احوال القیامة وبدءالخلق:باب فی المعجزات الفصل الاول ۔

  جنگ میں قتل کئے جانے والے کافروں کی قتل کی جگہ کی پہلے ہی نشاندہی کر دی:۔   حضرت انس بن مالک   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کرتے ہیں کہ جب ہم کو ابو سفیان کے(شام سے قافلہ کے) آنے کی خبر پہنچی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے صحا بہ کرام سے مشورہ فرمایا۔حضرت سعد بن عبادہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ)! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دین تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے، اگر آپ ﷺ ہمیں برک الغمار پہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے لوگو ں کو بلایا لوگ آئے اور وادی بدر میں اترے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فر مایا: یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے، آپ ﷺ زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ اپنا دست اقدس رکھتے، حضرت انس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیںکہ پھر (دوسرے دن)کوئی کافر حضور ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرا برا بر بھی ادھر ادھر نہیں مرا۔ صحیح مسلم :کتاب الجھاد والسیر: باب غزوة بدر،ونحوہ فی کتاب الجنة وصفة نعیھا واھلھا:باب عرض مقعد المیت من الجنة او النار علیہ واثبات عذاب القبر والتعوذ منہ، ابو داد فی السنن:کتاب الجھاد:باب فی الاسیر ینال منہ ویضرب ویقرن، والنسائی فی السنن:کتاب الجنائز :باب ارواح المومنین، احمد بن حنبل فی المسند،والبزار فی المسند، وابن ابی شیبة فی المصنف، والطبرانی فی المعجم الاوسط،والخطیب التبریزی فی مشکاة المصابیح :کتاب احوال القیامة وبدءالخلق:باب الفصل الاول ۔

  شہید ہونے والے صحا بی   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی پہلے ہی اطلاع دے دی:۔   حضرت انس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت زید، حضرت جعفر،اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنھم کے متعلق خبر آنے سے پہلے ہی ان کے شہید ہو جانے کی متعلق لوگوں کو بتا دیا تھا ۔چنانچہ آپ ﷺ نے فر مایا:اب جھنڈا زید   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہو گئے، اب حضرت جعفر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کر گئے۔ یہ فر ماتے ہوئے آپ ﷺ کی چشمان مبارک اشک بار تھیں۔ (پھر فر مایا)یہاں تک کہ اب اللہ کی تلوار میں سے ایک تلوار(حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ)نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور اس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کا فروں پر فتح عطا فر مائی۔ صحیح بخاری: کتاب المغازی:باب غزوة موتہ من ارض الشام، وفی کتاب الجنائز: باب الرجل ینعی الی اھل المیت بنفسہ، وفی کتاب الجھاد:باب تمنی الشھادة، وفی باب من تامر فی الحرب من غیر امرة اذا خاف العدو، وفی کتاب:المناقب: باب علامات النبوة فی الاسلام، وفی کتاب فضا ئل صحابہ :باب مناقب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ،ونحوہ النسائی فی السنن الکبری،واحمد بن حنبل فی المسند، والحاکم فی المستدرک، والطبرانی فی المعجم الکبیر،والخطیب التبریزی فی مشکاة المصابیح :کتاب احوال القیامة و بداءالخلق:باب فی امعجزات ، الفصل الاول۔

  ایک مرتد شخص کی موت کے انجام کو مرنے سے پہلے ہی بیان فر ما دیا:۔     حضرت انس بن مالک   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جو حضور ﷺ کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا میں تم میں سے سب زیادہ محمد (ﷺ) کو جاننے والا ہوں میں آپ ﷺ کے لئے جو چا ہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فر مایا: اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فر ماتے ہیں: کہ انہیں ابو طلحہ نے فر مایا: وہ اس زمین پر آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس کا کیا حا ل ہے؟ لوگوں نے کہا: ہم نے اسے کئی بار دفن کیا مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔اخرجہ مسلم نحوہ فی صحیح: کتاب صفات المنافقین و احکاھم، واحمد بن حنبل فی المسند، والبیھقی فی السنن الصغری، وعبد بن حمید فی المسند، وابو المحاسن فی معتصر المختصر، والخطیب التبریزی فی مشکاة المصابیح :کتاب احوال القیامة وبدءالخلق:باب فی المعجزات ، الفصل الاول ۔

  کھجور کاگچھا حکم نبی ﷺ پر حاضر خدمت ہو گیا حضرت ابن عباس   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:مجھے کیسے معلوم ہو کہ آپ نبی ہیں؟ آپ ( ﷺ )نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاں تو تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، پھر آپ ﷺ نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر گرا۔ پھر آپ ﷺ نے فر مایا: واپس ہو جا وہ واپس(اپنی جگہ)چلا گیا، پس اعرابی نے اسلام قبول کر لیا۔ ترمذی فی السنن:کتا ب المناقب عن رسول اللہ ﷺ:باب6، والحاکم فی المستدرک، والطبرانی فی المعجم الکبیر، الخطیب التبریزی فی مشکاة المصا بیح :کتاب احوال القیامة وبدءالخلق:باب فی المعجزات الفصل الثانی ۔

  حضور نبی اکرم ﷺ کے دست اقدس کی بر کت حضرت ابو زید اخطب   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دست اقدس میرے چہرے پر پھیرا اور میرے لئے دعا فر مائی ، عزرہ(راوی) کہتے ہیں کہ ابو زید ایک سو بیس سال زندہ رہے اور ان کے سر میں صرف چند بال سفید تھے۔ اخرجہ التر مذی فی السنن:کتاب المناقب عن رسو ل اللہ ﷺ:باب 6، والطبرانی فی المعجم الکبیر، والھیثمی فی مجمع الزوائد، اشیبانی ی الاحار و المثانی۔

  صحابی   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی نکلی آنکھ حضور ﷺ کی دعا کی برکت سے دوبارہ ٹھیک ہو گئی:۔  حضرت قتادہ بن نعمان   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن (تیر لگنے سے) ان کی آنکھ ضا ئع ہو گئی اور ڈھیلا نکل کر چہرے پر بہہ گیا۔ دیگر صحا بہ نے اسے کاٹ دینا چاہا۔ جب رسو ل اللہ ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے منع فر ما دیا۔پھر آپ ﷺنے دعا فر مائی اور آنکھ کو دوبارہ اس کے مقام پر رکھ دیا ۔ سو حضرت قتادہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی آنکھ اس طرح ٹھیک ہو گئی کہ معلوم بھی نہ ہوتا تھا کہ کون سی آنکھ خراب ہے۔ اخرجہ ابو یعلی فی المسند، والھیثمی فی مجمع الزوائد ، واب سعد فی الطبقات ، والزھبی فی سیر اعلام النبلاء، والعسقلانی فی تھذیب التھذیب۔

  صحا بی   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی ٹوٹی پنڈلی حضور ﷺ کی برکت سے دوبارہ جڑ گئی:۔  حضرت براءبن عازب   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ابو را فع یہودی کی طرف چند انصاری مردوں کو بھیجا اور عبد اللہ بن عتیک   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ان پر امیر مقرر کیا۔ ابو رافع حضور نبی اکرم ﷺ کو تکلیف پہنچاتا تھا اور آپ ﷺ کے خلاف مدد کر تا تھا اور سر زمین حجاز میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا۔۔۔۔(حضرت عبداللہ بن عتیک   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ابو رافع یہودی کے قتل کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فر مایا)مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔ پھر میں نے ایک ایک کر کے تمام دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ زمین پر آرہا۔ چاندنی رات تھی میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی تو میں نے اسے عما مہ سے باندھ دیا۔۔۔۔پھر میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حا ضر ہوا اور سارا واقعہ عرض کر دیا۔ آپ ﷺ نے فر مایا: پاں آگے کرو۔ میں پا ں پھیلا دیا۔ آپ ﷺ نے اس پر دست کرم پھیر ا تو ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی اورپھر کبھی درد تک نہ ہوا۔ صحیح بخاری :کتاب المغازی:باب قتل ابی رافع عبد اللہ بن ابی الحقیق، والبیھقی فی السنن الکبری، والا صبھانی فی دلائل النبوة، وابن عبد البر فی الاستیعاب، والطبری فی تا ریخ الامم والملوک، وابن کثیر فی البدایة والنھایة ۔

  حضور ﷺ کی بر کت سے حضرت ابو ہریرہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو حیران کن حا فظہ عطا ہوا:۔ حضرت ابو ہریرہ   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ (ﷺ)! میں آپ ﷺ سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں تو آپ ﷺنے فر مایا: اپنی چادر پھیلا؟ میں نے اپنی چادر پھیلا دی۔ آپ ﷺ نے چلو بھر بھر کر اس میں ڈال دئیے اور فر مایا: اسے سینے سے لگا لو۔ میں نے ایسا ہی کیا : پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھو لا۔ صحیح بخاری: کتاب العلم:باب حفظ العلم، صحیح مسلم:کتاب فضا ئل الصحابة:باب من فضا ئل ابی ھریرة الدوسی رضی اللہ عنہ، والتر مذی فی السنن:کتاب المناقب عن رسو ل اللہ ﷺ:باب مناقب لابی ھریرة رضی اللہ عنہ، والطبرانی فی المعجم الاوسط، وابو یعلی فی المسند

           حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مختلف روایات میں گیارہ سے تیرہ ازواج کے نام ملتے ہیں۔ زیادہ تر پہلے بیوہ تھیں اور عمر میں بھی زیادہ تھیں اور زیادہ شادیوں کا عرب میں عام رواج تھا۔ مؤرخین کے مطابق اکثر شادیاں مختلف قبائل سے اتحاد کے لیے یا ان خواتین کو عزت دینے کے لیے کی گئیں۔ ان میں سے اکثر سن رسیدہ تھیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کثرت ازدواج کا الزام لگانے والوں کی دلیلیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے صرف حضرت خدیجہ اور حضرت زینب بنت جحش سے اولاد ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج کو امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مؤمنین کی مائیں۔ ان کے نام اور کچھ حالات درج ذیل ہیں۔

  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا:۔  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نبوت سے قبل 25 برس کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پہلی بیوی تھیں اور آپ کی اولاد میں حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سوا تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں ان کے ہی بطن سے ہوئیں۔

  حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا   ان کے پہلے خاوند (جن کے ساتھ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی) کا انتقال حبشہ میں ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کر کے ان کے ایمان کا تحفظ کیا کیونکہ ان کے قبیلہ کے تمام افراد مشرک تھے۔

  حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہا   ان کے پہلے شوہر حضرت عبداللہ بن جحش کی شہادت جنگِ احد میں ہوئی جس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کر لی۔

  حضرت ام سلمہ ہند رضی اللہ عنہا :۔  آپ پہلے عبداللہ ابوسلمہ کی زوجیت میں تھیں اور کافی سن رسیدہ تھیں۔ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی۔

  حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب رضی اللہ عنہا :۔ ان کا شوہر جنگِ خیبر میں مارا گیا اور یہ گرفتار ہو کر آئیں تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے عقد کر لیا۔

  حضرت جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا :۔  یہ ایک جنگ کی قیدیوں میں تھیں اور ان کے ساتھ ان کے قبیلہ کے دو سو افراد بھی قید ہو کر آئے تھے۔ مسلمانوں نے سب کو آزاد کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ سے شادی کر لی تو تمام قبیلہ کے افراد مسلمان ہو گئے۔

  حضرت میمونہ بنت الحارث ہ رضی اللہ عنہا :۔  انہوں نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عقد کی خواہش کی جسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قبول کیا۔

  حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا:۔  حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی تو یہ مسلمان تھیں مگر ان کے والد ابو سفیان نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت امِ حبیبہ اپنے والد ابو سفیان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی چادر پر نہیں بیٹھنے دیتی تھیں کیونکہ اس وقت ابو سفیان مشرک تھے۔

  حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا :۔  آپ حضرت عمر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیٹی تھیں۔ آپ کے شوہر خیس بن حذاقہ جنگِ بدر میں مارے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے شادی کی۔

  حضرت عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا:۔  آپ حضرت ابوبکر   رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بیٹی تھیں اور کم عمر تھیں اور پہلی شادی ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کافی عرصہ زندہ رہیں۔ ان سے بے شمار احادیث مروی ہیں۔

  حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا:۔  نام زینب اور کنیت ام الحکم تھی۔ والد کا نام جحش بن رباب اور والدہ کا نام امیمہ تھا جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی تھیں۔ اس طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پھوپھی زاد تھیں۔حضرت زینب کا پہلا نکاح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہوا۔لیکن  تعلقات   بہت  زیادہ ناخوشگوار ہونے لگے تو حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دے دی۔جب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو طلاق دے دی تو اللہ تعالیٰ نے سورہ  احزاب  کی آیت نازل فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔

  حضرت ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا:۔  بعض روایات کے مطابق آپ کنیزہ تھیں مگر زیادہ روایات کے مطابق آپ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شادی کی تھی چنانچہ آپ بھی امہات المومنین میں شامل ہیں۔

  حضور  صلّی اللہ علیہ  وآلہ وسلم  کی  اولاد:۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد کی تعداد سات جن میں تین بیٹے اورچار بیٹیاں ہیں  جن  کی  تفصیل  یہ  ہے۔

  حضرت  قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ:۔ حضرت  قاسم بن محمد (عربی: القاسم بن محمد) حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔ آپ صغر سنی میں ہی انتقال کرگئے، جب آپ کی عمر محض دو سال سے بھی کم تھی۔ آپ کو جنت المعلیٰ، مکہ، سعودی عرب میں دفن کیا گیا۔

  حضرت  عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ:۔ حضرت  عبد اللہ بن محمد (عربی:عبد اللہ بن محمد) یا طاہر بن محمد اور طیب بن محمد بھی کہا جاتا ہےحضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔ آپ بھی صغر سنی میں ہی انتقال کرگئے۔ القاسم بن محمد آپ کے بڑے بھائی تھے۔ 

  حضرت  ابراہیم رضی اللہ تعالٰی عنہ:۔ حضرت  ابراہیم بن محمد (عربی:ابراھیم بن محمد) حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ماریہ القبطیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے۔ اُن کا نام حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جد امجد حضرت ابراھیم علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا تھا۔آپ    16   یا   18 ماہ  کی  عمر  میں  انتقال  کر  گئے  تھے۔

  حضرت  زینب رضی اللہ تعالٰی عنہا:۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب صاحبزادیوں میں بڑی تھیں جو بعثت سے دس سال قبل پیدا ہوئیں۔ کم سنی میں ہی یعنی نبوت سے قبل ان کی شادی خالہ زاد بھائی ابو العاص کے ساتھ ہوئی جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حقیقی بہن کے بیٹے تھے۔

  حضرت  رقیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا:۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد میں دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے نبوت سے سات سال قبل پیدا ہوئیں۔ نبوت سے قبل آپ    کا  نکاح  ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا لیکن رخصتی سے قبل ہی طلاق ہو  گئی   جس کی وجہ ابو لہب کی اسلام دشمنی تھی۔

  حضرت  ام کلثوم رضي اللہ تعالٰی عنہا:۔ حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تیسری صاحبزادی تھیں۔ نبوت سے کچھ عرصہ قبل پیدا ہوئیں۔حضرت ام کلثوم کا نکاح ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ سے ہوا تھا لیکن رخصتی سے قبل طلاق ہوگئی جس کی وجہ ابو لہب کی اسلام دشمنی تھی۔

  حضرت    فاطمہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا:۔ حضرت  فاطمۃ الزھرا   رضی اللہ تعالٰی عنہاحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ  رضی اللہ تعالٰی عنہا  چوتھی    صاحبزادی  تھیں۔آپ کی ولادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال میں مکہ میں ہوئی۔ آپ کی شادی حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوئی جن سے آپ کے دو بیٹے حضرت حسن اور حضرت حسین اور دو بیٹیاں حضرت زینب اور حضرت ام کلثوم پیدا ہوئیں۔

  حضور ﷺ کا  دنیا  سے  ظاہری  پردہ     باالآخر ۶۳ سال کی عمر میں بروز پیر ۱۲ ربیع الاول گیارہ ہجری کو رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور ان ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ جب آپ اس دنیا سے رخصت ہوئے اس وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں آپ نے اس جہاں سے پردہ فرمایا تھا۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔

  حضور ﷺ جسمانی حیات کے ساتھ آج بھی زندہ ہیں:۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں حیات جسمانی کے ساتھ آج بھی زندہ ہیں اور امتیوں کے سلام کا جواب دیتے اور بارگاہ الٰہی میں گنہگاروں کے لیے شفاعت فرماتے ہیں۔

حسن بن علی، حسین بن علی، عبدالرحمن بن یزید بن جابر حضرت اوس بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے بہتر دنوں میں ایک دن جمعہ کا دن ہے لہذا اس دن میں مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد) جب آپ کا جسم مٹی میں مل کر ختم ہو جائے گا تو درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس طرح پیش کیا جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دے دیا ہے۔ سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 1527

  حضور ﷺ کا  شفاعت کا وعدہ  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے روایت کرتے  ہیں  کہ  حضور  صلی  اللہ  علیہ  وآلہ  وسلم  نے  فرمایا  ۔ جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔ دارقطني، السنن، 2 : 278  ،    حکيم ترمذي، نوادر الأصول، 2 : 67  ،      بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 490، رقم : 4159، 4160

  امام سبکی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی چند اِسناد بیان کرنے اور جرح و تعدیل کے بعد فرماتے ہیں :  ’’مذکورہ حدیث حسن کا درجہ رکھتی ہے۔ جن احادیث میں زیارتِ قبرِ انور کی ترغیب دی گئی ہے ان کی تعداد دس سے بھی زیادہ ہے، اِن احادیث سے مذکورہ حدیث کو تقویت ملتی ہے اور اِسے حسن سے صحیح کا درجہ مل جاتاہے۔‘‘ سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 3، 11

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔ دارقطني، السنن، 2 : 278  ،      طبراني، المعجم الکبير، 12 : 310، رقم : 13497  ،  طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 223، رقم : 3400